اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا قسط نمبر2
آئیڈیل سےمراد ایک تصویر ایسی جس میں تخیلاتی رنگ تمام کے تمام اپنی مرضی سے نظر آئیں۔
اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا
قسط نمبر2.
حنا اور روبی کی ذندگی نظریہ ضرورت کی عملی شکل تھی شاید ان کےگھر کے ماحول میں یہی چبلتیں
پروان چڑھ چکی تھیں جب روبی نے یہ کہا کہہ
تم تو اکبر سےبھی پیار کی پینگیں چڑھا چکی ہو کون اکبر حنا ایک دم بھڑک اٹھی۔کیونکہ تیر نشانے پہ جا لگا بات بدلنےکی ناکام کوشش میں آخر روبی کی بات حنا کو سننا ہی پڑی وہی اکبر تمھارا سابقہ ٹیوشن فیلو۔وائی بلاک کوٹھی نمبر پانچ تمھارے گھر سے چوتھی گلی
۔۔بس کرو روبی خواب بننے پہ بھی اب پابندی لگا رہی ہو ۔حنا خواب جاگتی آنکھوں سے بننے کا مطلب کسی کو صاف صاف دھوکہ دینے کے مترادف ہے کیوں کسی کی ہنستی بستی زندگی میں تم زہر گھولنے پہ تل گئی ہو۔اپنےحالات سے سیکھنے کی کوشش کرو اپنی تہذیب اور تمدن سے جڑ کر رہو۔معاشرے کی اونچ نیچ سمجھو گلیمرس کی دنیا سے نکل آؤ کب تک ایسے دیکھتی آنکھوں خواب بنتی رہو گی۔میں تمھیں سارنگ سے نوٹس اور اسائن منٹس تک محدود رہنے کا ہی مشورہ دوں گی دیکھو ہم سب کلاس فیلوز برابر ہیں اور ایک دوسرے کے طاقت ہیں کلاس میں دوسروں کی اہلیت صلاحیت سے چیزوں کو جانچنے اور پرکھںنے کا موقع ملتا یے مسابقت کا ماحول پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو دیکھ کر خود کو کم تر سمجھنا حسد کرنابغض رکھنا کینہ پرور ہونا یہ بہت مہلک اخلاقی بیماریاں ہیں میرے دادا جی ہمیں ہفتہ میں ایک دو مرتبہ ضرور ایک ساتھ مل کر کھانا کھلاتے ہیں اور ساتھ ان اخلاقی بیماریوں کی بہت اچھی سی پچان کروا تے ہیں ۔۔بس کرو روبی دادی اماں۔۔۔۔کیا میں اپنے آئیڈل کو سوچنے کا حق بھی نہیں رکھتی۔ضرور سوچو لیکن پہلے پہل آئیڈیل کامعیار کم سے کم مقرر کر لو ۔اگر اس آئیڈیل کا دائرہ آئے روزبڑھتا چلا جائے اور ہر نئی کلاس میں پہنچ کر جیسا کہ تمھاری عادت رہی ہے سب کےسامنے برملا اظہار کرنے کی۔جب بھی نئی کلاس کے شروع میں سب اپنے گزرے سال کا احاطہ کرتے ہیں باری باری پوری کلاس کے سامنے اظہار خیال کرتے ہیں تو ملکہ آئیڈیل وہاں پہ کیا فرماتی ہیں کہ میرا گزرا سال نادانی اور ناسمجھی پن میں گزرا میرا تجربہ اور چیزوں کو جانچنےکا معیار کمزور تھا ناقص تھا ۔اب آپ ہی بتاؤ آئیڈیل کس چیزکا نام ہوا ۔۔بڑی گاڑی بڑا گھر روپے پیسہ کی ریل پیل بڑی ملازمت پروٹوکول عیش و عشرت کیا مادی ضروریات کا حامل انسان جس کاقد چھ فٹ تیکھی ناک فلاں خاندان فلاں شہر کیا کیا آئیڈیل میں شامل کروں گویا جہاں تک میں سمجھی یعنی ایک تصویر ایسی جس میں تخیلاتی رنگ تمام کے تمام اپنی مرضی سے نظر آئیں۔ روبی ایک تو اتنا بولتی ہو کہ سر میں درد کروا دیتی ہو۔پوری طرح دادی اماں اماں بن جاتی ہو۔۔میں تو لائیبریری جا رہی ہو تم جانو اور تمھاری کلاس جانے۔۔۔
گاؤں میں چوہدری اعلان کرواتا ہے اپنا سال بھر کا مالیہ ہر کسان اہک ہفتے کی مدت میں لازنی جمع کروائے۔سارنگ کا اباکہاں سے لائے گا اتنی رقم۔۔سارنگ کی ماں سوچ میں ایسے ڈوبی جیسے کوئی اجنبی اپنا راسہ بھٹک گیا ہو۔اور بارہا کوشش اسے رستہ معلوم نہ ہو رہا ہو۔گلی میں جونہی بیلوں کے گلے میں پڑی گھنٹیاں بجںیں تو فورا سارنگ کی ماں ایک دم حالت غم کی پرچھائیوں سے نکل کرحقیقت حال میں آن پہنچی ۔ یک لخت بولی یہ ہےہںم غریب لوگوں کی زندگی کے اندوہناک حالات۔جاگتی آنکھوں سو جاتے ہیں اور سوئی ہوئی آنکھوں جاگےہوتے ہیں ان دونوں کے بیچ ازیت ہی اذیت ہے آزمائش اور اذیت کے اس سفر میں سارنگ ہی ہمارا مداوہ کر پائے گا وہی ہمارا نجات دہندہ ثابت ہوگا۔۔۔۔
سارنگ کے ابا آج گلی گلی چوہدری کا ڈھول بج رہاتھا کہ ہر جی اپنی اپنی کھیتیوں کے پانی کا لیکھاجمع کروائے۔
اب ہم نے تو کل ہی چاول کی چار بوریاں بیچ کر پیسے سارنگ کو بھیجے ہیں۔سارنگ کا باپ فضل دین بیلوں کو باندھتا ہے وضو کر کے نماز ادا کرتا ہے رو رو کر دعا کرتا ہے ۔۔اے میرے رب مجھےہمت دے حوصلہ دے میرے بڑھاپے میں اتنی طاقت ڈال دے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے خوابوں کی تعبیر میں کامیاب دیکھ سکوں ۔گاؤں میں فخر سے سب کے سامنے ایک مثال بنا دے تاکہ میرامذاق اڑانے والےکچھ اپنے حصہ کی نصیحت وصیت ہی حاصل کر لیں۔انھیں کون سمجھائیے بھلا اولاد بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہو سکتی ہے۔۔سارنگ کی ماں تم ایسے کروکہ اپنی سونے کی دو چوڑی دے دو اسے بیچ کر معاوضہ ادا کر آتا ہوں۔۔میں نہیں چاہتا کہ باہو سارنگ کے گھر پر آ کرکوئی رقم کا تقاضا کرے۔۔فضل دین اپنے بیٹے پر کتنا اتراتا ہے۔ کتنا فخر کرتاہے۔ یہی مان ہوتا ہے یہی ایک باپ کے بڑھاپے کا سامان ہوتا ہے جسے دیکھ دیکھ کر وہ اپنی پوری زندگی محنت ومشقت میں گزر جانے پر کسی قسم کا ملال اپنے چہرے پہ نہیں لاتا۔سارنگ کے ابا یہ چوڑیاں تو میری ماں کی نشانیاں تھیں اب بھی میری ماں میری آنکھوں میں ہے جب اماں مجھے سلائی کڑھائی کا کام سکھلاتی تھیں
مجھے گڑیا پٹولوں کا شوق ہوا کرتا تھا کام کاجمیں ہاتھ بٹا کر اپنی سکھیوں کے ساتھ گاؤں کے بڑے سے برگد کے درخت کے نیچے گھر گھروندے بنایا کرتی تھیں۔ ککلی شٹاپو۔رسی کودنا اور پھر تھک ہار کر وہیں مولوی جی کا سبق بھی یاد کر لیا کرتے تھے ۔ساتھ ہی مسجد تھی روزانہ ابا جی اور چند بزرگ نماز سے فارغ ہو کر اسی درخت کے نیچے آ بیٹھتے اورچلم بنا کر گپ شپ کرتے۔۔کئی دفعہ مولوی جی کے ساتھ بیٹھ کر ہمارا سبقی مقابلہ کرواتے۔کسی ہفتے نماز سنانے ۔۔کبھی کلمے سنانے۔۔قرآن کی قرآت۔۔اللہ اور رسول پاک خاتم النبین کے اسماء مبارک سنانے کا اہتمام ہوتا۔پھر سب میں ٹافیاں بانٹی جاتیں۔۔رات کو دیئے کی لو میں سلائی کڑہائی اور گولے گوٹے کا کام سکھاتیں۔میں تنگ پڑتی اور اماں جی سے اگلے دن کام کرنے کا بہانا بناتی۔۔اباجی میرا ساتھ دیتے ابھی بچی ہے کھیل کود کر تھک جاتی ہو گی۔ابھی عمر ہی کیا ہے۔۔مجھے پاس بلاتے پیار کرتے کوئی نہ کوئی کہانی یا اپنے ابا اماں کی باتیں سناتے اور میں سنتے سنتےانکی باہںوں میں سو جاتی۔سارنگ کےابا اب اس عمرمیں حقیقت کو جان پائی ہوں کہ ابا جی مجھے اپنی امی ابا کی باتیں کیوں سنایا کرتے تھے۔گویا سارنگ کی ماں کو انکی باتوں میں وہ خوشبو وہ تشبیع وہ استعارہ ہر اک انگ ہر اک رنگ کا اندازہ اب اسے اپنے والدین سےجدائی کی تڑپ میں صاف ظاہر ہو رہے ہیں ۔تڑپتے جذبات جدائی میں اکثر اوقات اتنے بوجھل کر دیتے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے آنکھیں بے اختیار چھلک پڑتی ہیں ۔بس میں کچھ نہیں رہتا بے بسی کے عالم میں لہجے اتر جاتے ہیں ۔ہچکیاں بنںدھ جاتی ہیں ۔صبر کے بڑے بڑےبندھ باندھنے پڑتےہیں۔
یہ کام اتناآسان بھی نہیں ہےاگر آسان ہوتا توقرآن میں صبر شکر اور برداشت کی یوں ہی تاکید بار بار نہ کی جاتی۔۔یہ بوجھ بہت بھاری ہے ہنستی بستی ذندگی کو دیمک لگ جاتی ہے۔اپنی ذندگی جینا بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
پروفیسر عتیق کلاس میں آئے۔آتے ہی البیرونی اور ابن سینا پر سوال جواب کے لئے ایک مختصر دورانیہ کا حلقہ قائم کیااوراسائن منٹ تیار کرنےکے لئے دو دن کا وقت دے کر چلے گئے۔دن بھر تین صاحبان نے کلاس پیریڈذ لئے دو پیریڈذ کالج سٹرائیک کے نظر ہو گئے۔اور ایک پیریڈ اردو ادب کا معاشرتی ناہمواریوں کا رونا روتے پروفیسر ہارون کی آہ و بکاں میں کون و مکاں ہو گیا۔۔علم کے متلاشی کہاں جائیں آخر کریں بھی تو کیا کریں ۔سپنوں کی تعبیر اور تقدیر کو چار چاند لگیں بھی تو کیسے۔ذہینی سکون اور ذوق انہی مرگ مفادات کی نظر ہو جاتا ہے۔۔۔سارنگ بوجھل دل و دماغ کے ساتھ اس نظام تعلیم اور معاشی تنگ دستیوں کو سوچتے سوچتے بجائے ہوسٹل جاتا ۔میس پہ کھانا کھاتا وہ سیدھا لائبریری جا پہنچا۔گیس پیپرز نکالے امتحانی نکتہ نگاہ سےسوالات کی اہمیت کوجانچا فہرست تیار کی۔نماز عصر ادا کی اور دیوار کو ٹیک لگائے مستقبل کو سوچتے سوچتے وہیں آنکھ لگ گئی۔۔۔۔۔ماں لکڑیاں اکٹھی کرتی ہے آگ جلاکرسارنگ کے لئے کھانا تیار کرتی ہے اور بڑے چاؤ سے بڑے مان سے اپنے بیٹے کے سر پہ شفقت اور پیار سے ہاتھ رکھتی ہےاور نوالہ سارنگ کے منہ میں ڈالتی ہے وہ اپنی ماں کا ہاتھ چومتا ہے اور ماں کے سینے سے لگ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے جیسے پانی سے بھرےبادل نے اک دم برس کر پانی کے بوجھ سے خود کو آزاد کرا لیا ہو۔۔میرالخت جگر اپنی ماں سے ملنے کو اتنا بے تاب تھا پریشان تھا۔حالات کا ستایا ہوا تھا تو فورا میرے پاس آجاتے۔۔تیری یاد میں تیرا ابا اور میں روزانہ شام کو اپنےصبر کی دیوار مضبوط کرنے کی سعی میں جب جدائی کا درد نہ سہہ پاتے تو آنکھیں ہماری بھی چھلک پڑتیں پھر تمھارے ابا اپنا دل بڑا کر کے میری روتی آنکھوں میں تیرے روشن مستقبل کے خوب صورت خواب دکھاتے۔۔آنسوؤں کی لڑی میں دکھوں اور آرذوؤں کی اک خوب صورت قوس قزاح دکھتی۔۔۔جس میں میرے سپنے میرے ارمان موتیوں کی مالا میں پیروئے ہوئےمیرے گلے کا ہار بن جاتے۔۔
حنا لائبریری داخل ہوتی ہے اورسارنگ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائےآنسوؤں میں گالیں بھیگی نظر آتا یے۔حنا پریشانی مyیں سارنگ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتی ہے۔سارنگ نیند سے بیدارہو جاتا ہےاورٹوٹےہوئے جسم کا بوجھ اٹھانے سےقاصرہہے۔۔۔
ہمارے بزرگ ہمارے اسلاف ہمارے معاشرے کے بے لوث معلم تھےانکی تھوڑی سے رہنمائی سے میلوں مسافت طے ہو جایا کرتی تھی مگر اب اور آج ایک قدم چلنا محال ہے کیونکہ علم تو ہے مگر اس پہ چلانے والے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔۔
۔پڑھئیے ,سوچئیےاوراپنی رائے سے مستفید فرمائیے
Comments
Post a Comment