village-life-se-judai-adhura-rishta



 


                🖋️  ! میری نئی تحریر پڑھیں
📝 دیہاتی زندگی سے جدائی: ایک ادھورا سا رشتہ
❤️ پڑھیں، محسوس کریں، اور اپنی یادیں بانٹیں

"دیہاتی زندگی سے جدائی: ایک ادھورا سا    رشتہ"    


                              کرشماتی خلقت

      --دیہات کی صبح کا  نظارہ کچھ ایسے ہی جلوہ  افروز ہوتاہے
جیسے خالق  اپنی خلقت سے ملنے زمین پر آن پہنچا ہو۔ صببح صادق مرغ کی اذان۔ پرندوں کی میٹھی سریلی آوازیں۔ پروا کے سکون بخش جھونکے۔ کنووں اور جھرنوں سے بہتے پانی کی سرسراہٹ۔ نیلگوں پہ سفید بادلوں کے ٹکڑے ۔کہساروں کے پر فریب نظاریے۔سر سبزوشاداب شجرو کھلیان۔ چہکتے پرند۔ مہکتی خوشبوئیں۔ ان بیش قیمت گھڑیوں میں آدم ذات اپنے آپ میں کچھ ایسے گم ہو جاتا ہے جیسے سمندر کی ہوش ربا لہروں میں سیپیاں ۔۔سیاہ گھنگھور گھٹاوں میں سفید بگلوں کی قطاریں ۔تپتے صحراوں میں سراب کے نظارے اپنی ذات کی نفی کرنے کے لے کافی ہیں۔تشنگی پھر بھی رہتی ہےان پر فطرکیفیات میں میرا یہ مانناہےکہ یقینا فطرت پوری طرح ایسے کہیں بھی جلوہ  افروز نہیں ہوتی  ہو گی مگر ۔۔۔وہ نگاہ پر سوذ سب کچھ اپنے آپ میں سما لیتی ہے جو ان ناقابل بیاں نظاوں میں کہیں نہ کہیں  گم ہو جاتی ہے۔
                               دیہات کا بچپن
بچپن کی شامیں جب سورج کھیتوں کے پیچھے چھپتا تو ہم  درختوں کے نیچے اپنی اپنی کھیلیں کھیلتے افق کی زردی اورپھر  مسجد کے بلندو بالا مینار سے  اللہ رب العالمین کی منادی ۔۔۔۔
کھیتوں میں ہل چلاتے کسان  اپنے بیلوں کے سنگ ۔چرواہے گنگناتے ہوے اپنی اپنی راہووں پہ دھول اڑاتے ریوڑ لیے ۔گاوں کی  طرف گامزن۔۔ ٹھنڈی ہوا، زمین کی خوشبو، مٹی سے لپٹے پاؤں اور ماں کی آواز میں بلاتا ہوا نام — یہ سب آج بھی دل
کے کسی کونے میں سانس لیتے ہیں۔
                             شہری زندگی
مگر جب شہر کی چمکتی سڑکوں نے ہمیں اپنی طرف بلایا، ہر
طرف برقی قمقمے۔محلوں جیسے گھر۔بے ہنگم ٹریفک کی روانگی۔کشادہ پکی سڑکیں۔برقی اشارات۔بڑے بڑے سائن بورڈ سینما گھر ۔پر ہجوم بازار۔مادیت پسندی نےہماری آنکھیں چندھادیں ہم نے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا دیہات، بچپن،
سادگی حتی کہ سب رشتےبھی۔
                       جدائی اک کرب کا نام ہے

دیہات سے جدائی صرف ایک فاصلہ نہیں، ایک جذبہ ہے۔ وہاں
کی گلیاں، پرانی دیواریں، خستہ مٹی کے گھر آج بھی خوابوں میں آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں — کسی پیپل کے نیچے بیٹھ کر صرف خاموشی کو سنیں۔ اور اے کاش کہ کانپتے ہاتھ چہرے پہ گہری جھریاں لاٹھی کے سہارے چلتی میری بوڑھی ماں  کاش کہ وہ مجھے پھر سے پیار سے بلاتی ۔اپنے سینے سے لگاتی مجھ سے جڑ کر بیٹھتی۔سرسوں کا ساگ مکئی کی روٹی تنور کی خوشبو ۔میرا بے چین ہو کرانتظار کرنا۔مجھے خط لکھوا کر بے چینی سے بلوانا۔میرا رستہ تکنا اور پھر گلے لگانا۔روتے ہوے بے سہارا بچے کی طرح  کمزور تھکا ہوا مادیت میں ڈوبا ہوا جب گلے لگتا  تو یوں سکون اور چین ملتا جیسے مجھے دوبارہ اک نئی زندگی ملی ہو میری مردہ روح پھر سے زندہ ہو گئی ہو۔
                           مٹی کی خوشبو
دیہاتی زندگی سے جدائی کا دکھ صرف وہی سمجھ سکتا ہے
جس نے وہ زندگی جی ہو۔ یہ دکھ خوبصورت ہے، کیوں کہ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل سکون سادگی میں ہے، زمین سے جڑت میں ہے، اور اپنے پن میں ہے۔اس مٹی کی خوشبو سے ہمارا جیون معطر ہے جس میں کھیل کود کرپل بڑھ کر ہم جوان ہوئے اورآج بھی وہ مٹی وہ خوشبو ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ایک کسک سی من میں اٹھتی ہے اے کاش کہ پھر میں بچپن میں لوٹ جاتا اور سریلی کوائیل کی گیتوں میں ہمیشہ کے لئےکھو جاتا۔۔کھو جاتا۔۔۔
                              دکھ اور ملال
دیہاتی زندگی سے جدائی کا دکھ وہ ملال ہے اور ایسا کرب ہے کہ جس کی میٹھی ٹیسیں آج بھی من میں سراپا احتجاج ہیں۔ ڈیجیٹل سکرین پہ اس رنگ کی جھلک آج بھی نظر آتی ہے تو دل مٹھی ہو جاتا ہےکلیجہ منہ کو آتا ہے آنسووں کی بے اختیار
لڑیاں آنکھوں سے برسات کی طرح بہنا شروع ہو جاتی ہیں۔۔
          جسونت سنگھ حقیقت کی کسوٹی پر
حقیقت کی کسوٹی بھی بہت عجیب ہے انڈین وزیر خارجہ
جسونت سنگھ کے باپو کا گھر مغربی پنجاب پاکستان کے تاریخی شہر ہڈالی میں واقع ہے جناب جسونت سنگھ ہڈالی تشریف لائے ان کا کہنا تھا کہ باپو ابھی تک انڈیا میں واقع گھر کی چھت کی منڈیر پر بیٹھ کر اسی رخ تکتے رہتے ہیں اور آنسووں میں جدائی کا کرب بہتے بہتے انکی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے جناب جسونت سنگھ نے علاقہ میں علمی پیاسوں کی پیاس بجھانے کے ئے ایک لائبریری قائم کی اس آبائی گھر کی مرمت کروائی اور جاتے ہوئےصحن میں کھڑے درخت کی ٹہنی توڑ کر لے گئےکہ باپو صاحب کے لئےاور میرے بیتے بچپن کی یادوں میں اس ٹہنی کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔۔۔
                                  مادی ترقی
کبھی کبھی لگتا ہے ہم ترقی تو کر گئے، مگر خوشیاں کہیں کھو
گئیں۔ گاؤں میں کم تھا، لیکن برکت تھی۔ یہاں سب کچھ ہے، مگر دل بے چین ہے۔ دیہات میں لوگ کم تھے، وقت زیادہ تھا۔ یہاں وقت کم ہے، لوگ بہت ہیں، مگر تعلق کمزور۔۔۔۔انتہائی کمزور۔۔۔۔
                    کسک سی من میں اٹھتی ہے
دیہاتی زندگی سے جدائی کا دکھ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے وہ زندگی جی ہو۔ یہ دکھ خوبصورت ہے، کیوں کہ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل سکون سادگی میں ہے، زمین سے جڑت میں ہے، اور اپنے پن میں ہے۔اس مٹی کی خوشبو سے ہے۔ہمارا جیون اس خوشبو سے معطر ہے جس میں کھیل کود کرپل بڑھ کر ہم جوان ہوئے اورآج بھی وہ مٹی وہ خوشبو ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ایک کسک سی من میں اٹھتی ہے اے کاش کہ پھر میں بچپن میں لوٹ جاتا اور سریلی کوائیل کی گیتوں میں ہمیشہ کے لئے کھو جاتا۔۔کھو جاتا۔۔۔

                          🌾 اختتامیہ

شاید ہم واپس نہ جا سکیں، مگر اپنی تحریروں، یادوں، اور جذبات میں دیہاتی زندگی کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ جہاں محبت، سادگی، اور سکون بستے ہیں — وہی ہمارا اصل دیس ہے۔ یہاں ہمیں اک بات کبھی نہیں بھولنی چاہیےکہ ایک دن
ہم میں سے ہر ایک کو اصل کی طرف لوٹنا ہے اپنے حقیقی رب
سے ملنا ہے جو روزمجھے اپنے گاوں کی صبح ملا کرتا تھا۔

                         ✨  اصل پہچان 
اگر آپ بھی کبھی دیہاتی زندگی کا حصہ رہے ہیں، تو ایک لمحے کو پلٹ کر دیکھیے۔ شاید وہاں کچھ ایسا رہ گیا ہے، جو آپ کے دل کو سکون دے سکتا ہے۔ سادگی، محبت، اور اصل رشتے — یہی ہماری اصل پہچان ہیں۔

                        -


اپنی قیمتی رائے سے سرفراز فرمائیں
     
                                                                       

Comments

Popular posts from this blog

deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life

ایک دیہاتی استاد ایک خاموش جنگ