اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا — قسط اول

اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا قسط اول اس عنوان میں صوفیانہ رمز، دیہاتی سادگی، اور شہری چالاکی کے بیچ ایک سادہ لڑکے کی بربادی کی جھلک شامل ہے۔ درویش بابا اپنی پگڑی کو سمیٹتے ہوئے بات کرتے کرتے گہری خامشی میں غوطہ زن ہو گئے گویا ہونے اور نہ ہونے کی مسافت آن پڑی ہو اور غورو فکر کی چادر میں چھپ گئے ہوں حاضرین محفل میں کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ فیضان بابا کے سامنے کھنکھنا ہی سکے انکی موجودگی میں گلے کی خراش بھی ایسی سکونیت میں چلی جاتی جیسے سفید بادلوں میں پانی جم گیا ہو آنکھیں بند بابا جی اچانک بر لب آواز ہوئے محبت کی پر تو تو یہ جہان فانی ہے اورمحبت اپنے حسن جلال میں جہان بقاء میی ایسے جلوہ گر ہے جیسے دن میں مہتاب رات کو آفتاب حالانکہ ہم چشم آلودہ سے دیکھنے کو مقرر ہیں بس عطائے الہی ہےچرند کووہ نور چشم فرما ہوا کہ حالات برزخ بھی انکو عیاں کر دیے اور پرند کو وہ رونق جہان بخشی کہ اڑان پہ قادر میلوں کی مسافتق ہواؤں کے دوش پر سینکڑوں فٹ بیچ آسمان اور زمین دانے دانے کو عیاں کر دیا۔در...