اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا — قسط اول

 

               اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا
قسط اول

اس عنوان میں صوفیانہ رمز، دیہاتی سادگی، اور شہری چالاکی کے بیچ ایک سادہ لڑکے کی بربادی کی جھلک 

شامل ہے۔


درویش بابا اپنی پگڑی کو سمیٹتے ہوئے بات کرتے کرتے گہری 

خامشی میں غوطہ زن ہو گئے گویا ہونے اور نہ ہونے کی مسافت آن پڑی ہو اور غورو فکر  کی چادر میں چھپ گئے ہوں حاضرین محفل میں کسی کی ہمت نہ تھی کہ وہ فیضان بابا کے سامنے کھنکھنا ہی سکے انکی موجودگی میں  گلے کی خراش بھی ایسی سکونیت میں چلی جاتی جیسے سفید بادلوں میں پانی جم گیا ہو
آنکھیں بند بابا جی اچانک بر لب آواز ہوئے محبت کی پر تو  تو یہ جہان فانی ہے اورمحبت اپنے حسن جلال میں جہان بقاء میی ایسے جلوہ گر ہے جیسے دن میں مہتاب رات کو آفتاب حالانکہ ہم چشم آلودہ سے دیکھنے کو مقرر ہیں بس عطائے الہی ہےچرند کووہ نور چشم فرما ہوا کہ حالات برزخ بھی انکو عیاں کر دیے اور پرند کو وہ رونق جہان بخشی کہ اڑان پہ  قادر میلوں کی مسافتق ہواؤں کے دوش پر سینکڑوں فٹ بیچ آسمان اور زمین دانے دانے کو عیاں کر دیا۔دریاؤں اورد سمندروں میں پانی کو قید کر دیاموسموں کو تغیروتبدل اور رنگ و بو سے  سجا دیا۔بادلوں میں زمین کی رونق زیست چھپا دی ۔خاکی کی زباں سے بے اختیار سازینہ آواز نقارہ خدا بنا دیا
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
ترجمہ: پھر تم انس و جن اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟

یہ آیت سورۃ الرحمٰن میں 31بار دہرائی گئی ہے اور انس و جن کو اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی یاد دہانی کرواتی ہےیہ
آیت اللہ کی نعمتوں کے شکر اور عظمت کی گواہی ہ..س

بابا جی عشق  محبت چاہت پیار ان کی اصل کیا ہے
بیٹھ جاؤ بیٹا الفاظ جذبات کی مختلف اشکال ہیں مختلف کیفیات کے اظہار میں انکا استعمال جذبات کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان جذبات کو اشکال اور مقام کے تعین میں لکھاری ادیب اور قاری اپنا اپنابھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
جیسے شعلہ بھڑکنا پھر آگ پکڑنا اور آخر میں جل کر راکھ ہو جانا تین کیفیتوں کا ذکر ہے اور الفاظ اشکال کھڑی کرتے ہیں اب چاہت پیار شعلہ ہےمحبت آگ ہے اورعشق جل کر راکھ ہو جانا۔
اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے میں میں نہیں رہتا۔۔ تم تم ہو جاتا ہوں
بابا بلھیا فرماندے نیں۔۔
"میں نئیں مَیں، باقی رہیا تُوں"
(میں کچھ نہیں، بس تُو ہی تُو ہے)

علامہ اقبال کے نزدیک
عشق صرف ایک جذباتی یا رومانوی کیفیت نہیں، بلکہ ایک روحانی، فکری، اور عملی قوت ہے جو انسان کو اپنے وجود کے اعلیٰ ترین مقام تک لے جاتی ہے۔ اقبال کے افکار میں عشق کا تصور نہایت اہم اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

         ٰ'اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا''—
''                         ''قسط اول "
                            

                     

       بابا جی فرمانے لگے کہ
میں آپ کو اپنے ہی گاؤں کے سارنگ کی حقیقت سناتا ہوں کیسے وہ اپنا آپ پیار اور چاہت کی حسین وادیوں میں ہار گیا  سارنگ لاہور پڑھنے کے لئے گیا گاؤں کی آب وہوا کی طرح صاف میٹھے پانی کی طرح خوش اخلاق مگر شہر کے موسموں کی نظر ہو گیا سارنگ ماں باپ کی اکلوتی اولاد اور بڑھاپے کا واحد سہارہ تھا۔  ماں باپ اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے بچوں میں دیکھتے ہیں اور اس جستجو میں اپنا سںب کچھ داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔
سارنگ کا باپ دن بھرکھیتوں کھلیانوں میں محنت کرتااور اپنی جمع پونجی سار نگ کوبھجوا دیتاگھر روکھی سوکھی کھا کر اللہ کا شکر بجا لاتےان کی آنکھوں میں اک عجیب سی چمک آ جاتی جب دونوں بیٹے  کے لئے جاگتی آنکھوں خواب بنتے اسکی باتوں کو دہراتے دن بھر کی تھکان گویاسارنگ پہ آ کر ختم ہو جاتی
غریب کی زندگی میں شب روز کی  محنت اورتکلیف کا اندازہ چہرے پہ پڑی اسکی جھریوں سے لگایا جا سکتا ہے یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ  ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کا نہری نظام  دنیا بھر کا بڑا نظام ہے مگر ہمارے کسان کی تقدیر کبھی نہ بدلی ہر آنے والی حکومت کسان دوست کم تاجر دوست زیادہ ۔سارنگ کے باپ کا سامنا بھی اسی قسم کے ساہوکارانہ نظام سےتھا۔بہرحال
سارنگ کا ایک دوست بتاتا ہے کہ لائبریری میں حنا نامی لڑکی نےجب پہلی بار کلاس روم  کے ماحول سے الگ تھلگ اور منفرد مزاج پڑھاکو لڑکا دیکھا جو کتب کےمطالعے میں ایسے کھویا ہوا تھا کہ اردگرد کسی کے ہونے نہ ہونےکا کوئی اثر نہ پڑتا حنا اکثر لائبریری میں اسائنمنٹ تیار کرنے آتی دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارنگ سے مدد لیتی لیتی اسکے قریب ہوتی چلی گئی سادہ لوح دیہاتی شام کو شہر کی چمکیلی چمکتی دمکتی روشنیوں میں کھو جاتا ۔


اور کبھی کبھار توشہر کی آنکھیں چندھا دینے والی  زرق برق زندگی سے  وہ بیزار ہو جاتا الگ تھلگ ہو کر کسی پھلواڑی میں بیٹھ کر گاؤں کے کھیت کھلیان یادکرتا نم آنکھوں سے ماں باپ کے ارمانوں کی تسبیع کرتااپنے حوصلے کو بلند کرتاماں باپ کی خواہشات کو اپنی طاقت بناتا جب کبھی موسم انتہائ سرد ہوتا تو انکی صحت کے وسوسےآن گھیرتے دن میں ایک دو چکر لیٹر بکس روم کے لگ جاتے فکر پریشانی میں ہوسٹل میس جا کر تھوڑا بہت لنچ کرتااور کتب کی کمی سے نمٹنے لائبریری کی راہ لیتا اللہ بھلا کرے پروفیسر فضل حق کا جنھوں نے پہلے ہی دن کلاس میں لڑکوں کو لائبریری کی راہ دکھائی تھی تاکہ  دور دراز سے آئےطلباء پر مالی بوجھ کم ہو سکےاور ان میں کتب بینی کی عادت پیدا ہو سکےجس دن گاؤں سے خط آتا اس دن سارنگ بہت خوش ہوتا چہرہ شاداب و سیراب  اور بدن میں زندگی کی ہل چل گویا جیسےخزاں کی دہلیز پر بہار کی دستک ہوئی ہو سارنگ کئی کئی دن لفافے کو چومتا رہتا بار بار خط پڑھتا اس بات کا اندازہ حنا کو لائیبریری میں آتے جاتے ہو چکا تھا لہذااپنا کام نکلوانے کے لئےوہ لومڑی کی زباں بولتی اور اسائن منٹس سارنگ گھنٹوں لگا کر مکمل کر دیاکرتا اور حنا اپنی سہولت کاری کا صدقہ کبھی کبھارگھر سے کچھ نہ کچھ کھانے پینےکی شکل میں  لاتی اور نذر ونیاز کر دیتی جبکہ خصوصی اہتمام کی مشقت کبھی بھی حنا اپنے سر نہ لیتی بس جس دن کھانے میں جو  ڈش زیادہ بن جاتی وہ اگلے دن شاہی بے نیازی سے پیش کر دی جاتی سادہ لوح مگر قابلیت میں چاند بھی شرما جائے مڈٹرم امتحان میں سارنگ نے سب ذہین فطین ہر اپنی سبقت کے جھنڈے گارڑ دئیے یوں سارنگ کا شمار کالج کے ہونہار طلباءمیں ہونے لگااب ہرکوئی اس کےنام سے واقف تھاکلاس میں ہر کام چور لڑکے اور لڑکی کی کوشش ہوتی کہ دو چار تعریفی کلمات کے بدلے نوٹس اور اسائن منٹس والا کام سارنگ سے نکلوا لیا جائے ایک دن پروفیسر ناصر نے سارنگ کو سجھایا تھاکہ تم سیدھے سادےطالب علم ہوان کی چرب زبانی  میں نہ آیا کرو صرف اپنی پڑھائی پہ فوکس رکھو صحت اور آرام کا خیال رکھا کرو اکثر پروفیسر مختار اور میں تمھیں لائبریری میں دیکھتے ہیں بس تم بچ کے رہا کرو اور اپنے فیوچر پر نظر رکھو۔





حنا ایک انتہائی چالاک لڑکی تھی جب اس نے دیکھا کہ کلاس کی ہر لڑکی سارنگ سے مدد لینا ڈسکس کرنا سلام کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے تو اس کےجلاؤ گھیراؤ کی طاقتیں اور بھی زور آور ہو گئیں اب بلاناغہ لائبریری کا طواف شروع ہو گئےحنانے ٹھان لیا کہ اب ہر قیمت سارنگ کو اپنی مٹھی میں قید کر کے ہی دم لے گی رفتہ رفتہ اسے  سارنگ کے بارے کچھ انسیت سی محسوس ہونا شروع ہوئی مگراس نے تمام باطلنی آوازوں کی سرکوبی کے لئے اپنی ایک دوست روبی کی مدد طلب کی روبی کو جب اس سارےکھیل کاعلم ہوا تو وہ ہنس ہنس کر ٹیڑی ہوئی خیر نوٹس اور اسائن منٹس کی جھنجٹ والا کام اسے بھی نظر آرہا تھا لہذا اس نے حنا کا ساتھ دینے میں ہی عافیت جانی۔




Comments

Popular posts from this blog

village-life-se-judai-adhura-rishta

deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life

ایک دیہاتی استاد ایک خاموش جنگ