deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life

 

"وہ یہ کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا       


  •                                                                   Part _1

اک دیہاتی لڑکی مہرو وفاکا پیکر نکلی 

                                         آغاز

ندگی مسلسل امتحان لیتی ہے مگر انسان آرام و آسائشوں کی سر   توڑ کوشش میں ، انکو حاصل کرنے میں اپنا آپ اور    نظام فطرت کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ 

ایک طرف ہوس اپنی راہیں  مخصوص کرتی ہے تو دوسری طرف

قدرت کو جلال اورتقدیر با اختیار ہوتی ہے ۔




فضل دین گاؤں میں اپنی وراثتی پیلیوں میں ہل چلاتا اور رب کی رضا پہ صابر رہتا ہے۔ فضل دین بیلوں کی جوڑی جوتے اپنے راہٹ سے پانی نکال کر  بڑی مشکل سے  کھیتیاں سینچتا کرتا مگر نہری پانی اس کی کھیتوں کی زینت بننے سے پہلے ہی چوہدری کے رقبہ کی نظر ہو جاتا جبکہ بچا کھچا پانی دوسرے تیسرے درجہ کے زمیندار لے جاتے البتہ نہری پانی کےمالیہ میں فضل دین اپنا سالانہ حصہ ضرور وصول کرتا ۔فضل دین کی بیوی سخت بیمار رہتی ۔ رابعہ گھر کے کام میں  ماں کا ہاتھ بٹاتی اور چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال بھی کرتی۔  رابعہ نام کی بڑی، مگر ابھی عمر لگ بھگ تیرہ برس۔ اس کی آنکھوں میں وقت سے پہلے ہی اداسی کی جھلک آ گئی تھی۔ ماں کی بیماری نے اس کے بچپن کو کہیں چھپا دیا تھا۔ وہ محلے کی چھوٹی بچیوں کو قرآن پڑھاتی ۔ اس کے لہجے میں سادگی اور الفاظ میں محبت کی خوشبو ۔ وہ جب  بھی بچیوں کو درس پڑھاتی، تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سی روشنی پھیل جاتی۔  قرآن کی تعلیم کے ہدیہ سے چولہا تو جلتا، مگر قرض کی دیوار روز بروز اونچی ہوتی جا رہی تھی                                             ۔                       


     

ایک دن شام کو فضل دین تھکا ہارا گھر لوٹا ۔ اسکی بیوی کی طبیعت  سخت خراب ۔ پاس کوئی رقم بھی نہ تھی ۔پریشانی میں سر جھکائے زبان پہ اللہ سےصبر اور برداشت کی التجاء  مالک اپنی نافرمانی سے بچانا خالی ہاتھ ہوں چوہدری کا کاردار آۓ روز میرا سود بڑھاتا جا رہا ہے لیکن تو جانتا ہے میں نے سود نہ لیا تھا بلکہ وہ رقم میرے ذمہ ادھار تھی۔انہی سوچوں میں گم تھاکہ رابعہ نے ہدیہ قرآن جو کسی بچی کی ماں نے دیا تھا ۔یہ دیکھ کر فضل دین کی سسکیاں نکل گئیں رابعہ کے مصوم ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے ہچکی بندھ گئی۔معصوم ہاتھوں میں کھنچی لکیروں کو چومتے ہوئے اے مالک میں نے ہمیشہ پہلا نوالہ اپنی بیٹی کو کھلایا مجھے رات دن اسکی فکر رہتی ہے  تو اس کے نصیب اچھے کر دے۔  میں رات دن کھیت کھلیان میں حلال روزی کی تگ و دو کرتا ہوں۔



 رات کو گاوں کے چھپر چوپال میں بزرگ  بڑوں سے جو سیکھا وہ میری دولت ایمان یقین قناعت صبر شکر ہے اور یہی میوہ اپنے خاندان کو کھلایا انہی باتوں کو سیکھتے سیکھتے ادھیڑ عمر کو آن پہچا ہوں۔اے مالک اس چھپر چوپال کو قائم رکھناکہ جن کی بدولت ہم تم سے ہر وقت صبر و شکر کی دعا کرتے ہیں تیرے آسرے سے اٹھتے ہیں اور سوتے ہیں ہوس حرص سے پناہ مانگتے ہیں۔ تیری رضا پہ قائم ہیں۔فضل دیں اٹھا ہی تھا کہ کواڑ زور زور سے بجنے لگا۔

 یہ قرض خواہ چوہدری کا کاردار تھا، جس کی عمر خود فضل دین کے برابر تھی۔ چہرے پر مکاری کی جھلک اور باتوں میں لالچ کی میل۔ وہ بہانے بہانے سے فضل دین کے گھر چکر لگاتا۔ کبھی حساب چکتا کرنے کے لئے آتا، کبھی حال احوال پوچھنے۔ لیکن رابعہ کی ماں کی نگاہیں اس کی نیت پڑھ چکی تھیں۔ وہ کئی بار فضل دین سے کہہ چکی تھی کہ “اس کا آنا جانا اچھا نہیں لگتا، یہ کسی دن ہمیں مصیبت میں ڈال دے ۔

فضل دین پہلے تو ٹال جاتا تھا۔ کہتا، “بس قرض کا لین دین ہے، چکاتے ہی یہ بھی رک جائے گا۔” مگر اندر سے اس کا دل کانپتا 

تھا۔ غربت کی چکی میں اس کے صبر کا آٹا پس چکا تھا

قرض اور بیماری  میں وقت ایک سا نہیں گزرتا۔مقروض کا وقت گھوڑے پہ سوار ہوتا ہے جبکہ بیماری میں وقت چیونٹی پہ سوار ہوتا ہے۔یہ مالک کائنات کے امتحان ہیں بیٹی رابعہ تمھاری ماں کا دکھ بڑا ہے اور ہماری آزمائش بھی بہت بڑی ہیں یہ محض ایک اتفاق نہیں  اور نہ ہی مالک کائنات ہم سے غافل  ہے ۔۔بیٹی سمجھ رہی ہو نا ۔۔فضل دیں اپنی بیٹی اور چھوٹے بیٹے کو گلے لگائے بیمار بیوی کےپاس بیٹھ کر حوصلے کو صدا لگاتا ہے کہ اللہ کی ذات  شاہی میں کم گداگری میں جا بجا ملتی ہے  ملاقات کا گر تو خواہی ہے۔

اب میں اپنے جگر گوشوں کو بتاتا ہوں رب کہاں کہاں ملتا ہے۔

                              قناعت

جب مدعت طویل ہو جائے حوصلے کی تو قناعت کی شکل میں رب ملتا ہے۔وہ دیکھنے آتا ہے کہ جو میرے رستے پہ چلے ہیں وہ روکھی سوکھی پہ صبر کرتے ہیں دراصل طویل حوصلہ ہی تو رب کو اس کے اپنے بندوں سے ملاقات کرواتا ہے۔کبھی فاقے کبھی تنگ دستی ۔کبھی سکھ کبھی دکھ۔کبھی رونا کبھی ہنسنا۔

قناعت سے مراد دل کا موجودہ حال اور ملے ہوئے رزق پر مطمئن رہنا اور زیادہ کی لالچ یا حرص نہ کرنا ہے۔

                    وضاحت

بابا نورےکو چوپال میں بات کرتے سنا ہے کہ  قناعت انسان کی وہ خوبی ہے جس میں وہ اپنی حیثیت اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر خوش اور شکر گزار رہتا ہے۔   اگرچہ انسان کو زیادہ مل سکتا ہے یا وہ محنت کرکےبہت کچھ حاصل کر سکتا ہے، لیکن شرط پھر بھی یہی ہےکہ حرص اور طمع میں مبتلا نہیں ہوتا۔

قناعت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان  کوشش چھوڑ دیے یا محنت نہ کی جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے عطا کیا ہے، اس پر دل مطمئن رہے اور حسد یا بےصبرے پن کا شکار نہ ہو۔

مثال 


اگر کسی کے پاس کچا

 بوسیدہ گھر اور گزر بسر انتہائی مشکل  ہے مگر وہ اسی میں خوش رہتا ہے، تو یہ قناعت

اگر کسی بھوکے کو روکھی سوکھی مل جائے اور دل میں  اللہ کی شکر گزاری ہو کہ اللہ نے بھوک مٹانے کا انتظام کیا، تو یہ بھی قناعت ہے۔

کسی بزرگ نے کتنی خوبصورتی سے کائنات کو مٹھی میں بند کیا ہے 


                      ایک مشہور قول                         

"وہ یہ کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔"

                                      صبر

بیٹا طویل حوصلے کی اگلی شکل صبر ہےصبر وہ طاقت ہے جو انسان کو آزمائش میں کمزور ہونے سے بچاتی ہے شکایت نہ کرنا، اور اللہ پر بھروسہ رکھنا۔

                                 وضاحت

بابا گاماںے کو یہ بات کرتے سن  چکا ہوں  جب کوئی تکلیف یا مشکل پیش آئے اور انسان شکایت کیے بغیر  اس پر جمے رہے، یہ صبر ہے۔

جب کوئی مقصد پورا ہونے میں دیر لگے اور انسان مایوس نہ ہو بلکہ محنت اور دعا جاری رکھے، یہ بھی صبر ہے۔

جب غصہ  جیسے تیری ماں کو کاردار پر آ رہا ہےلیکن برداشت کر کے معاف کر دیے تو ، یہ بھی صبر کی ایک شکل ہے۔

اللہ رب تعالی قرآن میں صبر کی تلقین کرتا ہے۔

 اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ" بیٹا  اس میں کوئی شک و شبہ نہیں  ؒکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔۔

                             بیٹا میری باتوں سے تنگ تو نہیں آگئے ہو۔دو چیزیں اور بتا دوں پھر تمھاری ماں کی سنتا ہوں بیٹا رابعہ  چوپال میں اک عرصہ لگا ہے ان باتوں کو سیکھنے میں۔۔۔رابعہ کے ہاتھوں کو فضل دین اپنےہاتھوں میں لے کرکہتا ہے بیٹا

تم میرے جگر کا ٹکڑا ہوتم میری روح میں رہتی ہو میرے بعد تم نے بیٹا ان باتوں کو اپنا کرمردانگی کا پہاڑ بن کراپنے بھائی کا بازو بننا ہے کبھی زمانے کے آگے کمزور نہ پڑنا۔رابعہ آنکھوں میں آنسوؤں کے سیلاب کو اندر ہی اندر پی جاتی ہے اور اپنا سر باپ کے کندھے پر رکھ دیتی ہے۔فضل دین بات جاری رکھتا ہے

بیٹا اندر کی توڑ پھوڑ کو شکر کےگارے مٹی سے جوڑتے ہیں بابا گاماں کہتا ہے کہ

                                          شکر

طویل حوصلے کی  تیسری لذت آمیز اور میٹھی شکل شکر ہے

شکر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو دل سے تسلیم کرنا، زبان سے اس کی تصدیق کرنا، اور  اپنے عمل سے اس کا حق ادا کرنا۔

شکر  تین طرح سےہوتا ہے کہ                                            

1. دل سے شکر                                                    

دل میں یہ یقین رکھنا کہ جو بھی نعمت ملی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

2. زبان سے شکر                                                   

زبان سے "الحمد للہ" کہنا، اللہ کی تعریف اور حمد کرنا۔

3. عمل سے شکر                                                     

اللہ کی نعمتوں کو اس کی رضا کے مطابق استعمال کرنا۔ جیسے تم اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے کا کام کر رہی ہو۔ 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے                                           

"لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ"                                                

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔" (سورۃ ابراہیم: 7)                            

                                    حدیث

                        اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا 

"جس نے لوگوں کا شکر یہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔" (ترمذی)                         

                             بیٹا  شکر کے بہت سے فوائد ہیں                                                    

دل کو سکون ملتا ہے

نعمتوں میں برکت آتی ہے

اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے

آزمائشیں آسان ہو جاتی ہیں


                             

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

village-life-se-judai-adhura-rishta

ایک دیہاتی استاد ایک خاموش جنگ