گجراتی نوجوان کا جنون ۔۔انسانیت کی معراج
گجراتی نوجوان کا جنون ۔۔انسانیت کی معراج
اکیلا ہی نکلا تھا سفر پر،
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔
قارئین وناقدین کےپیش نظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض اوقات اضطراب اس حد کو جا پہنچتا ہے کہ قلم اٹھانا
مشکل ہو جاتا ہے یوں لگتا ہےکہ قلم کی نوک لفظوں کے ساتھ انصاف کے معاملے میں کٹہرے میں کھڑا نہ کر دے۔۔مگر نیت جذبات کوراہ دینےمیں بے چین ہوکر معاشرتی اقدار کی پختہ بنیاد بننے کی ضمانت دیتی ہے۔بلاشبہ وہی معاشرے انسانی زندگی کے محافظ اور امین ہوتے ہیں جن میں اقدار زندہ ہوں اس ضمن میں الفاظ کو ان کادرست مقام دینا ان معاشرتی اقدار کے ساتھ بعینہ انصاف ہے وگرنہ انسانی جذبات کو لفاظی میں زیب قرطاس کرنا نا جائزاور لاوارث اولاد کے زمرے میں آتا ہے لپپثثث
قاری کا مجھ سے متفق
ہونا بہرحال لازم بات نہیں
ایک ایسا نوجوان جو گجرات کے ایک گاؤں میں برے معاشی حالات کی چکی میں پستے ہوئے مجبور ہو کر کراچی کی راہ لینے پہ مجبور ہوتا ہے وگرنہ دیہاتی آب و ہوا میں رچابچا جوان اپنی ممتا اور خاص رشتوں سے جڑی زندگی کی قربانی جان جوکھوں والا کام ہے۔دیہاتی زندگی بھی اپنے تمام تر رنگوں میں کتنی خالص ترین ہوتی ہے اور اس کا اندازہ دیہاتی مسکن
سے ہی ممکن ہو سکتا ہے
کھیت کھلیان صاف ستھری آب و ہوا ہرے بھرے درخت فصلوں اور باغ و بہار کی خوشبوئیں اور ان سب میں بے مثل اور
لازوال ماں کی محبت۔۔
محبت اگر کسی ایک لفظ میں سمٹ جائے تو وہ لفظ ماں ہے۔ ماں کی گود دنیا کی سب سے پرسکون جگہ اور اس کی آغوش وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے سارے دکھ، ساری تھکن، سارے وسوسے بھول جاتا ہے۔تربیت کی عملی شکل ماں کی محبت ہےجو بے لوث، بے غرض اور بے حساب ہوتی ہے۔ ا
س میں کسی بدلے کی طلب نہیں ہوتی، صرف دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ ماں اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنی ذات کو بھول جاتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک ہوتی ہے جو اولاد کی مسکراہٹ سے جڑ جاتی ہے۔ ماں سے محبت کا رشتہ خدا کی عظیم ترین نعمت ہے، یہی وجہ تھی اک مخلص اور سچے نوجوان عبدالستارجو بانٹوا گاؤں گجرات پنجاب کی صوفی منش درد دل رکھنے والا انسان جسے دنیا اب ایدھی کے نام سے جانتی ہے برے معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کراچی کو رخت سفر ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک مختصر سی جھلک
ایدھی صاحب کپڑے کی دکان ڈالتے ہیں مارکیٹ کپڑے کی خریداری کے لئے جاتے ہوئے راستے میں
اک شخص کو کسی نے چاقو مار کر جاں بحق کر دیا۔وہاں پہ تانتاہ باندھے لوگ تماشائیوں سے بڑھ کر حیوان ثابت ہوئےکسی نے اس تڑپتے شخص کی کوئی مدد نہ کی۔۔
علامہ اقبال نے انہی حالات کی عکاسی کچھ ایسے کی
درد دل کے واسطے پیدا کیاانسان کو
وگرنہ اطاعت کو کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ایدھی صاحب نے گدھا گاڑی سے انسانیت کی خدمت کا سفر شروع کیا۔پھر آہستہ آہستہ اپنی جمع پونجی سے اقساط پہ سوزوکی کمپنی کا کیری بولان لیا اس پہ ٹیلی فون نمبر لکھا۔ایک دوکان کے سامنے چندہ کی صندوقچی رکھی لوگ اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈالتے۔ایدھی صاحب خود گاڑی چلا کر میریضوں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس اسی دوکان کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔واقعات لاکھوں پیش آئےمگر جب تک ایدھی صاحب پر تبصرے ہوتے رہیں گے واقعہ ایک سے ایک بڑھ کرسامنے قارئین کے آتے رہیں گے۔ایک دفعہ اسیے ہوا کہ اک دن فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے۔مسجد کے دروازے پر ایک نومولود بچہ پڑا تھا مولوی صاحب نے ناجائز اولاد کے زمرے میں قتل کرنے کا اعلان صادر فرمایا۔لوگ بچے کو مارنے کے لئے جا رہے تھے ایدھی صاحب ہاتھ میں پتھر لئےانکے سامنے کھڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا اس نومولود کو پالا اور آج وہ بچہ کسی بینک کا بہت بڑا آفیسر ہے۔ایدھی صاحب لاوارث بچوں کی ولدیت اپنے نام سے درج کرواتے تھے
یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں خود اتر گیا نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپوپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا
دستر خوان بنا دیئے عورتوں کے لئے میٹرنٹی ہوم بنا دیئے... لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا .. ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دى .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تھے یہ وہاں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے
ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالیں۔ 16 ہزار نوزائیدہ بچیوں کی پرورش کی۔ انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائیں۔ اس وقت تک وہ ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے۔ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے، عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں۔ نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے۔
آج ہر پاکسانی کا سر بلند کر گئے دنیا کی نام نہاد اسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک ایسا آئینہ دکھا گئے جس سے وہ اپنی نیتیں اور خدمت کے اغراض و مقصد میں اللہ کی نبی آخر الزمان کے آخری خطبے کے علمبردار بن کر ابھرے اور ہیومن رائٹس کا اس سے بڑھ کر کوئی چارٹر آف ہیومن رائیٹس نہیں ہو سکتا۔۔سلام اس ماں کو جس کے لخت جگر جناب عزت مآب عبدالستار ایدھی نے اپنی آنکھوں کا نذرانہ دے کر اس دنیا کے لوگوں کو حقیقی روشنی یعنی اپنا نور بصیرت عام کر گئے
عبد الستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ھیں مگر ان کے بنائے ھوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف
عمل ھیں
اللہ کے حضور دعا ہے کہ ایدھی صاحب کو رحمت اللعالمیں کا قرب نصیب فرمائے۔۔امین ثم امین
Comments
Post a Comment