deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life
ایک دیہاتی لڑکی کیسے مہرو وفا کا پیکر نکلی
آغاز قسط 2
قسمت لالہ و گل اب بھی بدل سکتی ہے
نیت گر اچھی ہو گلشن کے نگہبانوں کی
ایک شام پھر کواڑ حریصۭ لالچی اور بے ایمان کاردار کے طوفان
سے لرزہ ۔فضل دین دن بھر کا تھکا ہار ا ٹوٹی بھوٹی چارپائی سے اٹھا ۔اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس وقت کواڑ کیوں پٹ رہا ہے۔ کارداری آمد پہ رسمی آداب کی حاضری بلائی گئی۔حالات وکسمپرسی کو بھانپتے ہوئے وہ کبھی چشمہ لگا کر کھاتہ چیک کرتا تو کبھی چشمے کو چڑھاتے ہوئے رابعہ کی جوانی کے طواف شروع کرنے کی سعی میں بہک جاتا اب کی بار تو اس نے شرم و و حیا کو پاوں تلے روند ڈالاجیسے سانڈ کسی کی پکی فصل کو اجاڑنے کے درپے ہو جائے ۔اس نے آو پوچھا نہ تاؤ اور لرزہ براندام ہوا ۔ باتوں باتوں میں رابعہ کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا، ہر اک لفظ رابعہ کی ماں کے دل میں ایسےآ کر چبھا , جسیے کوئی چن چن کر زہر میں ذوبے تیر سینے میں پیوست کررہا ہو اس نے آنسو بھرے لہجے میں فضل دین سے کہا، “یہ آدمی کبھی بھی ہمیں عزت سے جینے نہیں دے گا ۔ بیٹی کی حفاظت
کر لو، یہ ایک خطر ناک درندہ بن چکا ہے
فضل دین یہ سب کچھ دیکھ کر ہکا بکا ہو گیا ۔ اس کے اوسان خطا ہو گئے۔بے چارے نے ہاتھ جوڑے منتیں طرلے کیے کہ اب وہ یہاں سے چلا جائے۔ ںڑی مشکل سے فضل دین نے اسے گھر سے نکالا۔کاردار برابر رابعہ کو للچائی نظروں سے گھورے جا رہا تھا اور زبان پہ مسلسل قرض کا تقاضا۔ رابعہ سب سن بھی رہی تھی اور دیکھ بھی رہی تھی- باپ ایک کونے میں بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا ۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے رابعہ کو اپنے پاس بلایا۔ اس کی معصوم ہتھیلیاں تھامیں۔ ہتھیلیوں پر محنت کی چھوٹی چھوٹی لکیریں تھیں، جیسے ناتواں تقدیر کا نقشہ۔بیٹا ساری پیلیاں بھی اسکو بیچ دوں . تب بھی یہ کمبخت سود
اترنے کا نام نہ لے گا۔
وہ ان لکیروں کو چومتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ “اے مالک! نصیب تو ہی بناتا ہے۔ اسباب تو ہی پیدا کرتا ہے۔سدا کی بادشاہی تیری ہے۔ میں غریب ہوں، میرے خاندان کو ثابت قدم
رکھ۔
ہم پہ کرم فرما میری معصوم بچی جس کےابھی کھیلنےکودنے کے دن تھے ۔میں تو اس کے لاڈ بھی اٹھا نہ سکا۔اے مالک تو جانتا ہےاسکی پیدائش پہ میں نے گاوں میں چھوارے بانٹےتھے تیرا شکر بجا لایا تھا۔میں اپنی لخت جگر کے لئے خواب بھی نہ بن سکا۔۔ٹھیک طرح سے اسکی خواہشات کی دنیا بھی , اس کے من میں اتر کر نہ دیکھ سکا۔بیٹی کے کیا کیا سپنے ہوتے ہیں ۔کوئی آتا ہے اور آنگن میں کھلے اس پھول کو توڑنے کے درپے ہو جاتا ہے حتی کہ اس پھول کی خوشبو پورے آنگن میں ابھی کھلی بھی نہیں ہوتی کہ اس کومسلنے والے ہاتھوں میں مجبوریوں کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔چوپال میں بابے نورے
سے ان باتوں کا جواب ضرور پوچھوں گا۔
رابعہ نے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سر جھکا لیا۔ اس نے کبھی اپنی تقدیر سے شکوہ نہیں کیا تھا۔ جس دن ماں بیمار پڑی، اسی دن رابعہ نے چپکے سے اپنےبچپن کو دفن کر دیا تھا۔ اس نے سوچ لیا کہ کچھ بھی ہو جائے , وہ اس گھر کی دیواریں گرنے نہیں دے گی۔ رابعہ کہنے لگی ابا ! آپ ایسی پریشانی اور دکھ دینے والی باتیں نہ کیا کریں۔ میرا کلیجہ پھٹ
جائے گا ۔ ۔
رابعہ اپنے بچپن کو سوچ رہی ہےکہ اسکی سہیلیاں ابھی تک گاؤں میں واقع برگد کے بڑے درخت کے نیچے کھیلتی ہیں
ککلی شٹاپو کھیلںنا۔پینگیں چڑھانا۔گڑیا پٹولے بناناسب سوچیں اسے بے چین کر رہی ہیں۔ابھی رابعہ اپنے بچپن کے حصار سے نہیں نکلی تھی کہ وہ گھریلو ذمہ داریوں میں بری طرح پھنس کر رہ گئی۔رابعہ نے دل میں مچلتی ہوئی خواہشات کو نہ چاہتے ہوئے بھی دبوچا اور فضل دین کی ڈھارس بندھائی ابا جی آپ مجھے ہر آزمائش میں صابر شاکر پائینگے۔میرے قدم کبھی نہ ڈگمگائیں گے ۔ایک مرتبہ آپ نے اللہ کے نبی حضرت ابراہیم کا واقعہ سنایا تھا کہ کس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام
ثابت قدم رہے۔
اس رات فضل دین کی بیوی کو تیز بخار چڑھ گیا۔ گھر میں
..... دوائی کے پیسے نہ تھے۔ فضل دین بار ہا ر
سوچتا رہا کہ اب کں بار وہ کس سے مدد مانگے ۔ لیکن بیٹی
.کی عزت کا خیال آتے ہی اس کا دل دہل جاتا
رات دعاؤں اور مناجات میں گزری اللہ اللہ کر کے گیلی پٹیاں
کرنے سے بخار اترا۔
قرض خواہ کی ہوس اور دوسری طرف غربت کا طوفان برابر تیز ہو رہا تھا ۔فصل کے آنے میں ایک ماہ باقی تھا اوپر سے کاردار کی نظریں رابعہ پر جم چکی تھیں ۔ گاوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کوئی کہتا، “فضل دین مجبور ہے، بیٹی کی شادی کر دے گا۔ ” کوئی کہتا، “رابعہ صابر لڑکی ہے ،معصوم
.ہے ابھی شادی کی عمر کہاں ، اللہ کرم کرے گا
فضل دین کئی دنوں سے اس پریشانی میں سر گرداں تھاکچھ
سمجھ نہ آ رہی تھی
ایک دن فضل دین نے گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب سے مشورہ کیا۔ ان کی ڈھارس بندھانے والی باتیں سن کر اس کے دل کو کچھ سکون ملا۔ مولوی صاحب نے کہا، “بیٹا، حرام راہوں سے بچو۔ اللہ کا در کھلا ہے۔ رابعہ کی قسمت اس کی
امانت ہے۔”
رابعہ کے سامنے سب حالات آشکار ہو چکے تھے۔ایک طرف باپ کی مجبوریاں تو دوسری طرف اپنی محرومیاں ۔۔
اس نے اپنے رب سے دعا مانگنی شروع کر دی۔ رات کی تنہائیوں میں اس کے آنسو چپکے چپکے تکیے میں جذب ہورہےتھے اس کے منہ میں بار بار ایک ہی دعا تھی ، “یا اللہ! ماں کو شفا دے، ابا کو ہمت دے ، مجھے اپنے کلام کی روشنی سے طاقت دے۔”جو بھی رب تعالی سے من میں ڈوب کر مانگتا ہےاس کے حوصلے میں وقت کی طوالت جب آڑھے آتی ہے تو وہ خود زمین پہ اتر آتاہے اپنا نائب بطور وسیلہ بھیج کر رب اپنے ہونے
کا احساس دلاتا ہے۔
ایک دن گاؤں کے ایک نیک دل زمیندار کو خبر ملی۔ اس نے فضل دین کو بلایا اور کہا، “تم نے کھیتوں میں حلال روزی کی تلاش نہیں چھوڑی ، قناعت ،صبر اور شکر کی طاقت سےمقابلہ وار ریے ہو اور میری خوش بختی کہ خواب میں مجھے بطور سبب چن لیا گیا اور دکھا دیا گیا۔ تاکہ میں تمہاری
مدد کر سکوں۔ قرض چکانے
کو جتنا ہو سکے گافی سبیل اللہ چکاؤں گا۔”
فضل دین آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ گھر لوٹا ۔ اس نے رابعہ کی ہتھیلی پر ہاتھ رکھا اور کہا، “بیٹی، تیرا رب سچا ہے۔ تو نے صبر کیا، اللہ نے اس کا صلہ دے دیا ۔”رابعہ کہنے لگی یہ سب چوپال کی تربیت کا فیضان ہے بابا جی۔ ایمان پہلی کنجی ہے جس سے خدمت مخلوق خدا کی سیڑھی لگا کر رب تعالی تک
پہنچا جا سکتا ہے۔
رابعہ نے پہلی بار سکون کا سانس لیا۔ اس کی ماں کی طبیعت تھوڑی سنبھلی۔ قرض خواہ کی راہیں بند ہوئیں۔ غربت تو وہیں رہی، مگر اب گھر میں وقار کی روشنی پھیل چکی تھی۔فاقوں کی نحوست چھٹ گئی ۔ گھر سے ذہنی دباؤ ختم ہوا اور اب
رابعہ اپنی سکھیوں کے ساتھ اپنے بچپنے میں لوٹ گئی۔
رابعہ کی معصوم آنکھوں میں خواب جاگنے لگے۔ اس نے سوچا، ۔ میرے نصیب اللہ کی امانت ہیں۔” اور اس نے اپنے دل میں پھر سے امید کا چراغ یقین کے تیل سے روشن کر لیا۔رابعہ
علاقے کی سگھڑ لڑکیوں میں نامساعد حالات میں ابھر کر
سامنے آئی اور سب کی زبان پہ ایک ہی بات تھی کہ
رابعہ قناعت صبرو شکراور مہرو وفا کا پیکر نکلی۔
اللہ رب العزت ہر کسی کو ایسی اولاد نصیب فرمائے۔۔
(امین)
اختتامیہ
یہ کہانی صرف فضل دین کی نہیں، ہر اس انسان کی ہے جو غربت کے کٹھن موسم میں بھی جینے کی کوشش کو ہار ماننے
سے بہتر سمجھتا ہے۔
حوالہ قارئین کے لئے
مہرو وفا
لفظ “مہرو وفا” دو الفاظ کا مجموعہ ہے:
> ایسی محبت جو خلوص، وفاداری اور قربانی سے بھرپور ہو۔
یا وہ شخص جو محبت بھی کرے اور نبھانا بھی جانتا ہو
✅ مہر:
اس کا مطلب محبت، شفقت یا پیار ہے۔
اردو اور فارسی میں “مہر” کو سورج کی روشنی اور حرارت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، یعنی جو روشنی اور گرمی سب کو فیض پہنچائے۔
علامتی طور پر “مہر” کسی کے دل کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
✅ وفا:
اس کا مطلب ہے وفاداری، عہد نبھانا، سچائی اور ایثار۔
“وفا” محبت میں ثابت قدم رہنے اور وعدے کو پورا کرنے کی صفت ہے۔
مہرو وفا کی وضاحت
یہ ترکیب اکثر اردو شاعری اور نثر میں مثالی محبت اور وفاداری کی علامت کے طور پر استعمال ہوتی ہے، جیسے:
, سبحان الله
> “اس کی مہرو وفا نے دل کی دنیاہی بدل دی۔”
یعنی اس کی محبت اور وفاداری نے دل کو جیت لیا
قارئین حضرات سےبدلے میں انکی قیمتی رائے کی اپیل ہے۔
excellent thought provoking
ReplyDelete