اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا قسط نمبر 4

اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا

                                   قسط نمبر 4

زندگی تلخیوں اور آزمائشوں سے عبارت ہے۔۔وصل کے دن ہوں یا راتیں ۔۔۔۔۔سانسیں  اکھڑتی ہیں ۔۔۔دم گھٹتا ہے۔۔۔۔جدائی  بہت ہی بڑی آزمائش ہوا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




انتظار بھی بہت ہی تکلیف دہ چیز ہے۔سارنگ کو ترس گئے ہیں۔۔ اب تو دن کے روشن اجالے میں اپنے لخت جگر کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ یقین ہےمدت سےترستی آنکھوں میں میرا نور نظرعام ہو گا۔۔بھلا خواب میں ملنا بھی کوئی ملنا ہے۔سارنگ کی ماں چارپائی پہ اٹھ بیٹھی۔۔تم بھی ٹھیک کہتی ہو۔۔گھر کا سناٹا اور اوپر سےبڑھاپا دونوں ہی بہت ستاتے ہیں۔۔اب کس کو بندہ پکارے۔۔سارا دن رونق لگی رہتی تھی۔۔کبھی بیٹےکے لاڈ اٹھاتے تو کبھی سینے سے لگا کر  جان جوان ہو جاتے مگر اب تواندر خالی خالی سا لگتا ہے۔شام کو جب بھی کھیتوں سے لوٹا کرتا ۔۔۔ سارنگ کا یہی شور ہواکرتاتھا کہ میں دیر کیوں کردیتا ہوں گھر آنے میں۔۔۔بہت فکر مند ہوا کرتا تھا۔۔۔اب دیر سویر کیسی ۔۔اب کون کس کی انتظار کرے۔۔۔۔سارنگ کی ماں ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔۔۔سچ کہتے ہو سارنگ کے ابا۔۔۔۔ جب دل پہ بوجھ پڑتا ہے تو اونچی اونچی پکار تے ہوئے اس سے باتیں کرتی ہوں۔۔۔کوئی اور بندہ میری حالت دیکھے تو وہ مجھے پاگل ہی سمجھےگا۔۔۔جوان بیٹے کی یاد پاگل ہی تو بنا دیتی ہے۔۔۔کبھی مرغیوں سے سارنگ کی باتیں کرتی ہوں تو کبھی گائے بکری سے۔۔۔کبھی کبھی بیٹے کی مالا میں یادوں کے پھول۔۔پروہتے پروہتے۔۔ ٹپے ماہیے ۔۔ گنگناتی ہوں تو  زارو قطاررو دیتی ہوں۔ دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔۔ پھر بدن میں کچھ ہمت پیدا کر کے کام پہ اٹھ کھڑی ہوتی ہوں۔





غریب آدمی کا کوئی ہمدرد اور رشتہ ناطہ بھی تو نظر نہیں آتا۔۔ گھڑی دو گھڑی کے لئے کوئی آ کر خیریت عافیت ہی پوچھ لے۔۔۔۔

سارنگ کی ماں ۔۔۔کیوں اپنے آپ کو دکھی  کرتی ہو۔۔ماشاء اللہ ہمارا بیٹا ایک دن ضرور ہماری اک اک محرومی کو نعمت میں بدلے گا۔۔اک لمبے عرصےبعد اللہ نے ہماری گود میں سارنگ جیسا پھول ڈالا تھا۔۔جب کھیتوں میں کام کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو پیڑوں کے سائےمیں اس پھول کی خوشبومحسوس کرتا ہوں۔


 آج گاؤں کے ماسٹر سے سارنگ  کو خط لکھواتا ہوں کہ چند دن  

ہمارے پاس گزار جائے۔۔۔اس کے لئے ہم  دونوں بہت اداس ہیں۔۔۔

اب اس کے بغیر اک اک پل سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔۔بہت  ترسے ہوئے ہیں۔۔اسے دیکھے ایک سال کاعرصہ بیت چکا ہے ۔۔سارنگ کی ماں اب بیٹے سے ملنا لازمی ہے ۔۔یاد ستاتی ہےاسکی۔۔یل چلاتے چلاتےآنسو لڑئیوں میں بہتے ہیں۔۔۔پھر 

درخت کی چھاؤں میں دل کا بوجھ ہلکا کرتا  ہوں۔۔



دوسری طرف شہر کا موسم خوشگوارسا ہو جاتا ہے۔۔

حناء کال کر کے روبی سے معزرت کرتی ہے اور اپنی خودغرضی پہ شرمندگی کا اظہار کرتی ہے۔۔۔باتوں باتوں میں اپنے من کا کھوٹ زبان پہ لاتے ہوئے پوچھتی ہے کہ اس دن کتنی رقم سارنگ کے تکیے کے نیچے اس نے رکھی تھی۔۔۔۔روبی اک دم خاموشی اختیار کر تی ہے پھر ایک دو لحظہ وقفہ سےاپنا سکوت توڑتی ہے اور  اس نیت سے بتا دیتی ہے کہ اب اسے احساس ہو گیا ہے اور اپنے کئیے پہ نادم ہے۔۔۔جواب میں روبی بتاتی ہے کہ پانچ ہزار رکھے تھے۔۔۔یہ بات سنتے ہی روبی سے ملاقات کا وقت طے کرتے ہوئےاللہ حافظ کہتے ہی فون بند کر دیتی ہے۔۔۔

اگلے ہی لمحےحناء سارنگ کو کال کر کے حال احوال اور پاکٹ میں نقدی کا پوچھتے ہوئے کہتی ہے کہ اس دن روبی سے چھپ کر تمھارے تکیہ کے نیچے  پانچ ہزار کا نوٹ  رکھا تھا۔۔۔۔کیا اس نے وہ اٹھا لیا تھا۔۔

سارنگ ممنونیت میں ہاں کہتا ہے اورپھر دونوں میں حدت بڑھنے لگ جاتی ہے۔۔حناکلاس کے بعد پھلواڑی میں بیٹھ کر سارنگ سے دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتی ہے۔۔راتوں کو نیند نہ آنا۔۔بے چین ہو کر کالج کی تیاری کرنا۔۔پھلواڑی میں بیٹھنا۔۔باتیں کرنا۔۔ اک نشہ سا ذہن کو چڑھتا ہے۔۔رہا نہیں جاتا۔۔۔دیہاتی رنگ میں پلہ بڑھا جوان شہری رنگ میں زنگ آلود ہو کر اپنا سکون  بے سکون کرنے والی ڈگر پہ چل پڑتاہے۔۔جہاں کتنے ہی لعل اس ڈگر سے ایسے پھسلے کہ پھر وہ واپسی کی راہ تلاش کرتے کرتے ہمیشہ کے لئے بھٹک گئے۔۔یہ راہ الفت ہے۔۔آغاز لطافت سے ہوتا ہے۔۔۔تکلفات اور تکلف بھری نگاہیوں سے فاصلے سمٹنا شروع ہوتے ہیں۔۔


حنا سارنگ سےلائبریری میں ملاقات کا کہتی ہے۔۔۔۔شام چار بجے دونوں حسرت بھری نظروں سے ایک دوسرےکا استقبال کرتے ہیں۔۔سارنگ کینٹین سے گرما گرم سموسے لایا ہواتھا ۔ہنسی مذاق اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ اور اس سے بڑھ کر قسمت کی لکیروں پہ گویا علم نجوم کو دعوت دی جاتی ہے اور پھر ایک دوسرے کے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اسے پرکھا جاتا رہا۔۔۔۔حنا سارنگ کی پسندیدہ خوشبو میں معطر پسند نا پسند سے بات شروع کرتی ہے اور ساتھ ہی سارنگ کو سموسہ اپنے ہاتھ سے کھانےاور کھلانے کا اہتمام کرتی ہے ۔۔بمشکل ایک سموسہ ہی سارنگ کھاتاہے باقی تین حنا چٹک جاتی یے۔۔۔اسے مہارت اور لطافت سے دو قدم  آگےبڑھ کر چلنے کاتجربہ تھا اور جذباتی ماحول پہ دسترس تو حنا کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی۔۔۔چند پرجوش ملاقاتوں میں ہی حنا نے سارنگ کی ساری مٹی کو اپنے مذموم ارادوں سے بغیر وضو گوندھ ڈالا۔۔اور سارنگ پہ پیار کی مہندی کا ایسا رنگ چڑھایا کہ اسے اپنے ہاتھوں پہ لگی غربت اور محرومیوں  کی لکیریں مٹتی سی  نظر آئیں۔۔آئے دن حنا زرق برق لباس میں ملبوس سارنگ کے گرد  ایسے نظر آتی جیسے کوئی تتلی پھولوں کے گرد اڑنے ہوئی رس چوسنے کی مشق میں مصروف عمل ہو۔۔۔



اب سارنگ کو درسی کتاب کے ہر صفحے پہ حنا محو گفتگو  نظرآتی ہے۔ جیسے حناء سارنگ کو لفظ بلفظ پڑھا رہی ہو۔۔۔ اور دنیا و ما فیھا سے بے خبر سارنگ  خیالات کی وادیوں میں اتر کر ایسےکھوجاتا۔۔ جیسے وہ واپسی کا رستہ ہی بھول گیاہو۔جاگتے سوتےسارنگ کے اعصاب پہ ایک ایسی آسیبی دنیاکا حصار قائم ہو چکا تھا کہ اب اسے توڑنا سارنگ کے بس میں نہ تھا اور نہ ہی وہ خود اس تخیلاتی سحرکو توڑنے کا در پےتھا بلکہ یوں لگتا تھا جیسےوہ خود ہی 

اس تخیلاتی  دنیاکے  بہت بڑے محافظ کا کردار ادا کررہا ہو۔۔



لائبریری اٹنڈنٹ بابا خادم جب بھی حناء کی عدم موجودگی میں سارنگ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تو خود سارنگ ہی کسی نہ کسی طرح طوطا چشم ہو جاتا۔۔

دن گزرتے گئے اور وقت اپنے گہرے نقوش سارنگ کے ماتھے پہ بے رحمی سے اسی طرح کندھا کرتارہا۔۔جیسے قبر کےکتبے پہ۔۔۔

کالج کے نوٹس بورڈ پہ سالانہ امتحانات کی ڈیٹ شیٹ نےسارنگ اور حنا کی آسیبی دنیا میں ایک طوفان کھڑا کر دیا کیونکہ سارنگ تیاری کے لئے تعلیم پہ فوکس کرنا چاہتا تھا اور وہ حناء سے سالانہ امتحان کے بعد ملاقاتوں پہ بضد تھامگر حناء کے لئے یہ تجویز ہر گز قابل قبول نہ تھی۔۔۔حناء سارنگ سے ناراض ہو کر روبی کے ساتھ گھر چلی جاتی ہے۔۔


Comments

Popular posts from this blog

village-life-se-judai-adhura-rishta

deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life

ایک دیہاتی استاد ایک خاموش جنگ