اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا قسط نمبر 3

       اک چراغ جو شہر کی ہواؤں میں بجھ گیا       

   قسط نمبر3               


  

سارنگ کیا ہوا ۔
تم رو کیوں رہے ہو۔۔؟۔سارنگ خاموش دم 

بخود دیوارکا سہارا لئےزارو قطار روتا رہا۔۔..حناء زبردستی سارنگ کو تھامتے ہوئےاٹھا کر کرسی پہ بٹھاتی ہے۔اتنا قریب سے سارنگ نے کبھی کسی لڑکی کو نہیں دیکھا تھا۔صنف متضاد کی رعنائی اورجمالیاتی خوشبو اسکی سانسوں میں بری طرح سرایت کر گئی۔سارنگ کی آنکھوں میں رنگ بدلہ۔سانسوں میں ایک عجیب سی ہل چل اور دل کی دھڑکنوں میں لرزتی کیفیت۔۔۔بدن میں رونگٹے ۔۔۔کانپتے ہاتھ حنا کی خوبصورت بھری انگلیوں میں پیوستہ ہاتھ چھوٹنے پہ چھوٹے نہ پائے۔۔ایک ایسا نشہ رگوں میں سرائیت پذیر ہوچکا تھا کہ دنیا رک سی گئی۔۔حنا کواس لطف کرم کا کوئی پہلا پہل اتفاق نہ تھا۔اس نے 

اپنےاور سارنگ کے بیچ فاصلوں کو قوت باطل سے پچھاڑا اوراپنے ہونٹوں سے سارنگ کے بدن میں خامشی سے وہ ذہر اتاری کہ بے چارہ سارنگ عمر بھر کو لاعلاج سحر کی نظر ہو گیا۔۔حنا الٹے پاؤں جلدی میں ایسے وہاں سے پلٹی جیسےکسی آسیب نےاسے اچک لیا ہو "ان بے نیاز گھڑیوں میں اپنا دوپٹہ سارنگ کی بن کھلی کونپلوں پر، راہ نشانِ کے سنگ میل پر چھوڑ گئی۔"

 

۔کافی دیر سارنگ میز پرسر ٹیکےکرسی پہ بے سدھ پڑا رہا۔۔اک دم اذان کی آواز سارنگ کو ہوش میں لاتی ہے۔۔ادھر ادھر دیکھتا ہے دوپٹہ پڑا دیکھ کر حیرانگی میں اٹھا لیتا ہے۔۔اتنے میں لائبریری اٹنڈنٹ بابا خادم سارنگ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہے۔۔۔بیٹا اس لائبریری میں میری زندگی ایسے سینکڑوں حالات و واقعات میں نا تمام ہو رہی ہے۔۔بیٹا بڑے لوگوں کے بڑے خواب اور خوابوں سے زیادہ ان کے خیالات دریا کے پانی میں بنتے بھور میں غوطہ ذن کر دیتے ہیں۔۔ہنستی بستی زندگیاں انکی سر مستیوں میں  ختم ہو جاتی ہیں۔۔اور تم ایک غریب گھر کےچشم و چراغ ہو۔۔۔سارنگ  بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے۔۔۔بابا جی ابھی ابھی میرے کانوں میں اذان کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔  نہیں بیٹا نہیں ۔ابھی تو یہاں کوئی اذان نہیں ہوئی۔۔۔سارنگ گہری سوچ میں کھو جاتا ہے۔۔خادم بابا کیفیت کو سمجھ جاتا ہے۔۔سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر سارنگ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے ۔۔بیٹا تم ٹھیک کہہ رہے تھے اذان واقعی ہوئی ہے مگرآواز میری قوت  سماعت سے  ٹکرائی۔۔بیثا لگتا ہے یہ وہی اذان ہے جو کسی با عمل انسان نےپیدائش کے وقت تمھارے کان میں پڑھی تھی۔دراصل یہ وہ طاقت ہے جو تمھارے بدن میں باطل قوتوں کی سرکوبی کرے  گی۔۔اس آواز سے پریشان نہ ہو بلکہ اٹھو وضو کرو اور اللہ سےاسکی مغفرت کے طلب گار بنو۔۔دیکھو بیٹا تم ایک گاؤں سے شہر میں اپنے خوابوں کی تعبیرکے لئے آئے ہو۔۔اپنی تعلیم پہ توجہ مرکوز رکھو ۔گنتی کے دن ہیں گزر جائیں گے اور اک دن تم کامیاب و کامران گھر لوٹو گےاور پھر بیٹا جانتے ہو  ضرویات زندگی اور  آسائیشیں تمھارےقدموں میں ہوں گی۔

ادھر حناء فرط جذبات روبی سے فون پہ بات کرتی ہے کہ اس نے کیسے آج سارنگ کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیا اور اس کی سانسیں کیسے اکھڑیں اور وہ قربت کےاحساسات میں دم بخود

ہو گیا۔۔

سارنگ رات کوحناء کے خیالات کی غلام گردش  میں ایک بار 

پھر گرفتار ہو جاتا ہے۔۔جب ناچاہتے ہوئے بھی حناء کے دوپٹہ کو عجیب نظروں سے دیکھ کر اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے۔اک عجب  سی مہکتی خوشبو۔۔۔۔۔

پھر سے اسے اسیر زنداں میں ڈال دیتی ہے۔ ہیجانی کیفیت۔۔بدن میں بے چینی۔۔اکھڑی سانسوں۔۔مہکتے بدن  کی تڑپ میں ۔۔۔بے بس اور آنکھوں میں زردائی رنگ  ۔۔۔۔ہر متجسس آنکھ کے کینوس پر ایک مجنوں کی تصویر ایسے منعکس ہو رہی ہو۔۔۔ جیسے پنوں کی نظروں میں سسی اور رانجھے کی آہوں میں
ہیر۔۔

ہاسٹل کے کمرے میں آخر کون سارنگ کا مسیحا ثابت ہوتا۔۔کوئی بھی تو اایسا نہ تھا جو  وجود میں موجود ذہر قاتل سے اس کی جان بخشی کرواتا۔ ۔سارنگ پوری رات انگڑائیاں لیتا 

رہا۔۔تڑپتا رہا۔۔مگر کسی نے اس کا دھیان نہ کیا۔۔حنا کالج آئی 

مگر سارنگ کہیں نظر نہ آیا۔اس نے روبی کو ساتھ لیا اور 

ہوسٹل آنیں وہاں  کیا دیکھتی ہے کہ سارنگ شدید  بخار میں 


لت پت پڑا بے۔۔ 

درد سے بری طرح اونگ رہا تھا۔۔حنا اور روبی فورااپنی گاڑی میں ہسپتال لے کر جاتی ہیں۔جاتے ہی علاج شروع ہو گیا۔۔علاج معالجہ سے تین چار گھنوں میں بخار اتر گیا۔۔حناء  اپنی گاڑی میں سارنگ کوہاسٹل چھوڑ کر رفو چکر ہو گئی۔چونکہ۔ہسپتال کا بل سارنگ نے خود ادا کیا تھا اب اس کی جیب میں ہوسٹل واجبات اداکرنے کے لئے پیسے کم پڑ رہے 

تھے۔اور اپنی خودداری میں ادھار مانگنے سے بھی کترا رہا تھا۔

روبی حناء سے کہتی ہے کہ ہسپتال کا خرچ اسے ادا کرنا چاہئیے

 تھا ۔حنا چونک کر بولی۔۔یہ کافی نہیں ۔۔۔ کہ ہم اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئے۔۔جتنی اوقات وہ رکھتا ہے اتنا ڈیل ہو چکا ہے۔۔۔ویسے بھی یار۔۔لڑکے لڑکیوں پر خرچ کرتے ہیں ۔۔آگے پیچھے پھرتے ہیں۔۔نخرے اٹھاتے ہیں اور ہماری سوسائٹی میں تو لڑکے اللے تللے اخراجات اٹھانا اپنا سٹیٹس سمجھتے ہوئے اس روش پہ فخر کرتے ہیں۔۔۔حنا تم بہت خود غرض اور بے حس ہو۔۔نانی اماں تو خود ہی ہسپتال کا خرچ اٹھا لیتی۔۔مجھے فضول میں نصیحتیں کر رہی ہو ۔آئی بڑی نکتہ چین۔۔۔۔روبی بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔کم ظرفی کی کوئی حد ہوثی ہے بھلا تم اور تمھاری سوسائٹی والے کیا جانیں ۔۔اعلی ظرفی   کسں چیز کا نام ہے۔۔۔میرے پاس جتنے تھے وہ میں نے  تمھارے کہے۔پوچھے بنا ہی ہاسٹل  میں سارنگ کے تکیے کے نیچے رکھ دئیے تھے۔۔۔

اچھا چھوڑو ان فضول باتوں کو۔۔ یہ بتاؤ کہ سر اورنگزیب کی اسائن منٹ ڈیٹ کب ہے اور موصوم مرگ بستر پہ ہیں۔۔روبی چلا کر بولتی ہے۔۔حنا تمھاری تربیت پر از حد افسوس ہو رہا ہے مجھے۔۔ایسے روپے پیسےاور شان و شوکت پہ لعنت ہو ۔نوکر وں چاکروں کی گود  کے تربیت یافتہ لوگ ایسی ہی کمینگی سے  بھرے ہوتے ہیں۔۔ روکو گاڑی۔۔۔روبی غصے میں گاڑی سے اتر کر گھرکی راہ لیتی ہے۔۔۔۔حناء تلملائی۔۔۔آئی بڑی تربیت یافتہ۔۔۔سارنگ کی خیر خواہ۔۔۔۔۔اس کی تخیل میں اک خلل سا پڑتا ہے۔۔۔پھر خود کلامی کرتے ہوئے اپنے شکوک  شبہات کا اظہار کرتی ہے ۔۔۔کہیں روبی۔۔سارنگ میں دلچسپی تو نہیں لے رہی۔۔

ضرورت سے زیادہ ہی تربیت پہ لیکچر دے رہی ہے۔۔۔

سارنگ اپنے ماں باپ کو بستر پہ لیٹے سوچ رہا ہے۔۔۔یہ پہلا 

موقع تھا جب سارنگ گھر سے باہر ہزاروں میل ماں باپ سے  دوربیماری میں تڑپ رہا تھا۔۔۔بابا خادم کی باتوں کو یاد کرتا ہے تو کبھی حناء کے حسن سلوک اور پیار کی وکالت میں۔۔۔ اسکی طرف داری ۔۔۔کبھی بابا خادم لائبریری اٹنڈنٹ کی باتیں تو کبھی بوڑھے والدین کے خواب ۔۔گوں مگوں کی اس صورت حال میں اسے گہری نیند آجاتی ہے۔۔








Comments

Popular posts from this blog

village-life-se-judai-adhura-rishta

deehati-ustad-ka-qalam-the-silent-battlefield-of-life

ایک دیہاتی استاد ایک خاموش جنگ